CHAPTER 13

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

The City of Culture/Eisenman Architects.’Eisenmanوضاخت کرتا ہے کہ وہ

صرف وہی عمارات تعمیر کرتا ہے جر اسے بڑائی کا احساس دیں نہ کہ ایسی عمارات جو کہ صارف کی عام سی ضرورت کو پورا کریں۔ لہذا یہ حیران کن امر نہیں کہ اس کی عمارات کی ٹہڑی مہڑی اور غیر متوارن بناوٹ زندگی کے دباؤکی عکاس ہے۔ Image 169 Duccio Malagamba

قدرتی اور مصنوعی طرز زبان

زندہ اجسام کے تصور نظریے کے لیے براہ راست تجربے اور سائنس کی حمایت فن تعمیر کو سمجھنے اور ڈیزائن کرنے کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں ۔ یہ طریق تعمیری ڈیزائن کرنے کے لئے سب سے سمجھدار طریقہ ہے کیونکہ نہ تو یہ کسی نظریاتی اساس اور نہ ہی انفرادی پسند کا نتیجہ ہوتا ہے ۔ اور یہ اُن تمام خلاف عقل نظریات کے برعکس ہونا چاہئے۔۔۔جو آج کل فن تعمیر کے میدان پر چھائے ہوئے ہیں ۔

اور اگر ہم تعمیر شدہ ماحول میں معنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ تو ادراکی توازن سے بے بہرہ توضیحی نظام (Interpretive Schema) کا استعمال ترک کرنا ہوگا۔ فن تعمیر جیسا اہم علم و ادراک خودمختاری کی بنیادوں پر کام نہیں کرسکتا۔ ایسا ہوسکتا ہے اور میرے خیال سے ایسا کئی دہایوں سے ہو بھی رہا ہے۔ ہم ایسا فن تعمیر چاہیں گے جو انسانی احساسات کیساتھ یکساں ہو اور جس میں ڈیزائن کے بارے میں فیصلے مشاہدے اور اعداد و شمار کی تصدیق کی بنیاد پر کیے گئے ہوں۔ اور حتمی یہ ہونا چاہئے کہ عمارات انسانوں کے لئے اچھا صحت مند ماحول فراہم کریں اور کرہ ارض کو کم سے کم ماحولیاتی نقصان پہنچائیں۔

یہ کتاب ایسا کام پیش کررہی ہے جو اچھے اور بُرے فن تعمیر کے بارے میں فیصلہ کرنے لیے عالم گیر معیار تجویز کرے۔ اِس معیار کے ذریعے " اچھی" عمارات کا فیصلہ نظریات ، بدلتے فیشن یا گروہی پسندی سے بے بہرہ ہوگا۔ اچھی عماراتعام عوام کو مجموعی طور پر پسند آتی ہیں جو صحت مند ماحول کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ اور ان آلات کی آفادیت جن کے بارے میں ہم پڑھ رہے ہیں ہر ثقافت اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے کے لیے فائدہ مند ہے۔

Future System/ Media Centre at Lords Cricket Ground

" کچھ معماروں نے جدت ۔۔۔قدرت کے برعکس کام کرکے حاصل کی ہے، جو Modernism کے آغاز سے ڈیزائن میں جدت لانے کا فارمولا ہے اور یہ معمار ایسا کرنے سے کافی امارات حاصل کرچکے ہوتے ہیں"۔

Image (C) Flickr CC User Ben Suther Land.

اس ماڈل کے درست ہونے کا سب سے قوی ثبوت طبعی دنیا سے قریبی تعلق میں نظر آتا ہے ۔ ایسے تعلق کا ذکر معمار آپس میں عام فہم نہیں کرتے کیونکہ وہ اپنی تعمیر کردہ مصنوعی دنیا میں رہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔تصاویر اور خاکوں کی دنیا ۔۔۔ حقیقت سے بے بہرہ۔بہر حال انسانیت نے ماضی میں قدرت کے خلاف جانے سے یا اسے رد کرنے سے کافی نقصان اُٹھایا ہے اور بالاخر یہ عمل ختم ہوگیا۔

ہمارا ماڈل ماضی کی عظیم جمالیاتی اور تعمیری کامیابیوں کے درمیان ایک فعال تعلق قائم کرتا ہے ۔ ایسے خدشات اس میدان میں جو بلا وجہ جدت کا شکار ہو۔۔۔منع کیے جاتے ہیں۔ ایک اصول یہ ہوتا ہے کہ ماضی پر نظر نہ ڈالی جائے ۔ طلبہ کو فن تعمیر تاریخ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور اسے عملی اصول سیکھنے اور اپنے ڈیزائن کے عمل میں استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے۔ " دیکھواور تعریف کرو لیکن دوبارہ استعمال کرنے کا نہ سوچو" اور حیران کن امر ہے کہ کس طرح لوگ اپنی ثقافت سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہوتے ہیں تاکہ جدید فیشن اپنا سکیں۔

کتاب کے آخر تک پہنچنے پر ہم مختلف اجسام کے بارے میں فیصلے کرسکتے ہیں۔ جو ہماری زندگی سے جڑے ہیں اور ان سے فرق کرسکتے ہیں جو حیاتیاتی عوامل کو رد یا ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ اب ہمارے پاس تجرباتی بنیادوں کے ذریعے فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے۔

Christopher Alexander اور میں ایسی اشیاء بنانے میں یقین رکھتے ہیں جو زندہ اجسام کو بہتر بنائیں لیکن ہم دوسروں پر زور نہیں ڈال سکتے ۔ انہوں نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ اپنے ڈیزائن میں کونسی خصوصیات استعمال کرنی ہیں ۔

مباحثاً ، عام فہم ہے کہ The Rotunda/ University of Virginia کے ڈیزائن کے لئے Thomes Jefferson روم کےPantheon سے متاثر ہوا تھا۔۔۔۔ جو سولہویں صدیں میں Andrea Palladio نے بنایا تھا ۔

Image (C) Flickr CC user Brien Jeffery Beggerly

اور اس امر کا عملاً مظاہرہ کہ ہمارا فن تعمیر کا تصور دوسروں سے کتنا مختلف ہے 1982 کے Peter Eisenman اور Alexander کے مباحثے سے عیاں ہے ۔ یہ اہم تاریخی موڑ تھا کیونکہ تب پہلی بار Alexander نے "The Nature of Order" کی عوامی نمائش Havard Graduate School of Design میں کی تھی۔

اور Post modernism اور Deconstructivist فنِ تعمیر کو عا لمگیر حیثیت حاصل ہو ئی۔Post modernism شہرت حاصل کر رہا تھا۔اور پیچھے پیچھے Deconstructivist تحریک تھی۔ جو 1988 کی Museum of Modern Art کی نما ئش کی وجہ سے مشہور ہو ئی۔ (Salingaros,2004) یہ بحث آجکل ماضی کی طر ح اس لئے اہم ہے کیونکہ یہ عصرِ حاضر کے فنِ تعمیر اور اس کے مبا حثے کے بارے میں اہم مسائل پر زور ڈالتی ہے۔کا فی حیران کُن باتوں میں سے ایک اہم بات یہ بھی تھی جب Alexander , Eisenman کو منوانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ایک ہی چیز کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔۔۔جبکہ ڈیزائن کہ بارے میں اُن کے خیالات یکسر مختلف تھے۔Alexander شک کرنے میں حق بجانب تھا چاہے مشتر ک الفاظ کا استعمال کیا گیا تھا۔

یہ بحث اُن تما م پڑھنے والو ں کے لئے کا فی اہم ہے جو بعد میں رونما ہونے والے واقعا ت سے نتا ئج اخذ کرتے ہیں۔ پہلے Eisenman اور کئی اور معماروں نے ڈیزائن کا ایسا طریقہ چُنا جو تصاویر پر مبنی تھا اور سائنسی طریق کی نفی تھا جِسے Alexander نے اپنے طریقہ کار میں استعما ل کیا تھا۔

دوسرا یہ بہت واضح تھا کہ جو معمار ، Eisenman سمیت اس مباحثے کے بعد والے دور میں مشہور ہوئے وہ ہر اس چیز کا پرچار کرتے تھے جو انہیں خود اچھی لگتی تھی چاہے کتنی ناکارہ ہو۔

تیسرا، یہ مباحثہ Alexander کے نظریے کی کمزوریاں بھی واضح کرتا ہے۔وہ سائنس اور سچ پر بھرسہ کرتے ہوئے الجھنیں اور مارکیٹنگ کی اشتہار بازی کوختم کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن دنیا ایسے کام نہیں کرتی۔ جیسا کہ ہمیں اشتہاری دنیا کا پتہ ہے جو چیز بکتی ہے ضروری نہیں ہو ہمارے لئے اچھی ہو۔ Eisenman نظام کو اچھی طرح سمجھتا تھا اور فرانسی Deconstructivist فلسفیوں کا اپنے ڈیزائن میں استعمال ان کو منوانے کے لئے کر رہا تھا۔ وہ ایک ایسے نظام میں اوپر کی طرف بڑھ رہا تھا جو سائنس کے بجائے مارکیٹنگ کی طرح کام کرتا ہے۔ (Salingaros, 2004)

کافی کھوج کے بعد Alexander جو بنیادی اختلاف جان لیتا ہے۔۔۔ جس کے بارے میں اسے پہلے سے ہی شک تھااور اس کے عیاں ہونے پر وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے لئے پریشان کن امر تھا کہ Eisenman جیسامشہور معمار ایسے علیحدہ اور انفرادی نظریا ت کا حامل ہو گا اور اس رازکے افشا ہونے پر Alexander کو بہت غصہ آتا ہے۔

Refael Maneos Town Hall at Logrono, Spain

’’Moneo ، Eisenman اتفاق کرتا ہے کہ ، انتشار اور عدم تناسب پیدا کرنا چاہتا ہے، جو Alexander کو گھنونا لگتا ہے‘‘۔ Image (c) Flickr cc user Jynus

اتفاقیہ طور پر جو عمارت اس تنازعہ کی بنیاد ہے اس کا ذکر درج بالا کیا گیا ہے۔ پھر بھی Eisenman ایسے فن تعمیر کی توثیق کرتا ہے ۔ پھر کونسا نظریہ کامیاب ہوا۔ آگے پیش آنے واقعات نے ظاہر کیا کہ Eisenman فن تعمیر کا چمکتا ستارہ بن گیا Yale University میں پڑھایا اور دنیا بھر میں کئی کامیاب عمارتیں بنائی۔ Moneo نے 1985 سے لے کر 1990 تک Harvard Graduate School of Design کی سربراہی کی۔ 1993 میں Pulitzer Prize جیتا اور 1996 میں اسے Los Angeles کا Cathedral بنانے کا ٹھیکہ ملا (ایک عمارت جیسے میں 2012 کے تجزیے میں تنقید کا نشانہ بنایا ہے) فن تعمیر کے حکاموں نے اس میدان کی سمت تعین کی اور Alexander کو نظام سے علیحدہ کر دیا۔

Eisenman بیان کرتا ہے کہ کس طرح وہ اپنی سوچ کے مطابق عمارات ڈیزائن کرتا ہے بغیر سوچے کہ صارف کیضروریات کیا ہونگی۔ اور یہ حیران کن امر نہیں کیونکہ وہ زندگی کے بارے میں ایک دباؤ والا نظریہ اپنے ٹھرے میڑے ڈیزائن کے ذریعے پیش کرنا چاہتا ہے۔

ڈیزائن کے فلسفے کا یہ ایماندرانہ اقرار Alexander کے سائنسی نظریے سے حد درجہ مختلف ہے۔ اور 1980 میں اس کا برملا اعلان طلبہ کے لئے ایک مثال بن گیا۔ نقادوں نے فن تعمیر سے اس ذہنی کشش کوذہانیت اور معادیت کی ترقی کی وجہ قرار دیا۔ اور زمین سے جڑے احساسات عام اور ماضی کا حصہ قرار دے دیئے گئے۔

فن تعمیر کے نظریات کلی طور پر بنی نوع انسان کے لئے اسی صورت فائدہ مند ہو سکتے ہیں جب وہ عام انسانوں کے احساسات اور تجربات کے عکاس ہوں۔ ایک نظریہ صرف ایک چھوٹے سے اعلی طبقے کے لئے نہیں ہو سکتا نظریات عام لوگوں کو جاہل تصور نہیں کر سکتے اور یہ بھی دعوی نہیں کر سکتے کہ فن تعمیر کے بارے میں کچھ سچ نہیں ۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے Alexander اور اس کی فن تعمیر کے میدان کی سمجھ بوجھ جنونی اضافیت (Fanatical relativism) کی وجہ سے غیر اہم ہو گئی جس کے بارے میں Eisenman نے کہا کہ ’’میری خیال میں Chirs بدقسمتی سے Radar کی سکرین سے گر گیا ہے (یعنی کہ غائب ہو گیا ہے) ۔

اگر فن تعمیر کی قدریں چند دہائیوں کے لئے جیسا کہ Alexander کہتا ہے خودمختار اور انفرادی مزاج کی حامل تھیں تو یہ صورت حال کس طرح اتنے لمبے عرصے تک قائم رہی اور کیوں قائم ودائم ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ تصاویری روایت سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی میں کارفرما ہے اور قیاس آرانہ تعمیر میں یہ نظام ایک تعمیری صنعت (Construction Industry) پر مبنی ہے جو صنعتی مواد اور پیداوار طریقوں پر انحصار کرتا ہے۔ Licensing process صرف منظور شدہ تصاویر اور خاکوں کو استعمال کرنے کی اجازت دیتا ہے۔بینک کاری کا نظام قیاس آرانہ تعمیر کو فروغ دیتا ہے اور بیمہ (Insurance) کی صنعت خاص قسم کی تعمیر کو فروغ دیتی ہے وغیرہ اور یہ تمام فن تعمیر کے تعلیمی اداروں کے مرہون منت ہیں۔

یہ نظام Developer کے لئے بہت پیسہ بناتا ہے لیکن صارف کے لئے اچھے فن تعمیر اور صحت مند ماحول کو فروغ نہیں دیتا ۔ یا د رکھئے کہ کچھ دہائیوں سے کلائنٹ صارف نہیں بلکہ کلائنٹ Developer ہے لہذا معمار وہی کرتے ہیں جو کلائنٹ چاہتا ہے اور وہ عمارت کو ایک تصویر کی طرح بیچتا ہے۔ یہ عمارت کو رہائش اور کام کرنے کی جگہ کے طور پر جاننے کا الٹ ہے۔ اور وہ معمار جو Developers کے کام کے لئے سب سے اچھے سلیز پرسن (Sales person) ہوتے ہیں ان کو بدلے میں انعام ، کام اور اثرورسوخ ملتا ہے۔

لہذا ہمیں فن تعمیر کے بارے میں دو بہت مختلف تصورات کا سامنا ہے۔ ایک طرف عصر حاضر کا وہ نظام جو تصویری روایت کو فروغ دیتا ہے اور لازم کر دیتا ہے کہ اصلی کام نہ ہو ۔ ایک طالب علم ان طریقوں کو سیکھ بھی نہیں سکتا کہ وہ کچھ اس نظام کے باہر بنا سکے۔

دوسرے طرف اس کتاب کی مدد سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ فن تعمیر کو کس طریقے سے انسانی استعمال اور احساسات کے مطابق بنایا جا سکے۔ تعمیر شدہ ماحول کیسے لوگوں کی صحت اور ان کے کام پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اور یہ سمجھ بوجھ ہمیں کرہ ارض پر زندگی کو برقرار رکھنے میں مدد دیتا ہے۔