CHAPTER 5

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

Dessau Bauhaus Walther Gropius ہم نے بہت تشویش کے ساتھBauhaus کی تصاویر اور طریقوں کا مطالعہ کیا جن کو ترقی پزیر ممالک کے فن تعمیر میں متعارف کروایا گیا۔ پریس ان طریقوں کو ترقی کے اقدام ٹھہراتی ہے بغیر احساس کئے کہ ایسے اقدام کسی بھی ملک کی روایات کے لئے کتنے خطرناک ہیں۔ تصویر(c) Thomas Lewandovski

اکسویں صدی کا آغاز بیسویں صدی کے بدترین تعصبات کے تسلسل سے ہوا۔تعصبات مثلاََ روائتی ثقافتوں کو حقارت کی نظر سے دیکھنا اور ان سب تعلقات کو جو انسان کو اس کے علاقے کی تاریخ سے جوڑتے ہیں۔ اسی طرح، آجکل کی کئی عمارات اور پلاننگ کئی غیر تحریر شدہ اصولوں پر مبنی ہیں جن کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہے اور صرف بیسویں صدی کے بصری اور نظریاتی اشکال پر مبنی ہیں۔ عصرِ حاضر میں ڈیزائن پہلے کے ادوار کی ارتقائی مثالوں اور روایات کے معیاری اصولوں کے منافی ہیں اور اس نفی کو بڑی فضیلت جانتے ہیں۔ اس طرح معمار اور ماہر شہریات(Urbanist) ڈیزائن کے سادہ اصول اپنا لیتے ہیں اور خوبصورتی جو انسانوں کو ان کی زمین، روایات اور ثقافت سے جوڑتی ہیں ،کی نفی کرتے ہیں۔

ماحولیاتی خوف "Ecophobia" کی اصطلاح قدرتی صورتوں اور اشکال کے خلاف ایک نامعقول ردعمل کا اظہار ہے۔ اس اصطلاح کا طبی نفسیات(Clinical Psychology) میں استعمال انسانی مسکن کے خوف کی وضاحت ہے لیکن یہ خاص استعمال اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ تاہم ہم یہ مانتے ہیں کہ Ecophobia اورOikophobia کی اصطلاحات ایک دوسرے کی جگہ استعمال کی جاسکتی ہیں(لسانی طور پر ’’گھر‘‘ کا یونانی ماخذEcos یا Oikos لکھا جا سکتا ہے)

نظریہ اور تشہیرIdeology and Publicity

مشہور فلسفیRoger Scruton نے Oikophobia کی اصطلاح انسان کا اپنے مسکن کے لئے نامعقول خوف کی وضاحت کرنے کے لئے تجویز کی۔ وہ کہتا ہے کہ ’’ایک Oikophobe قومی وفاداری کی تردید کرتا ہے،

اپنے مقاصد اور تصورات کو قوم کے خلاف استعمال کرتا ہے اور بین الاقوامی اداروں کو اپنی قومی حکومت کے اوپر ترجیح دیتا ہے۔۔۔ اور اپنے سیاسی نظریات کو عالم گیر قدروں کے تناظر میں تشکیل دیتا ہے جو تاریخی فرقوں سے کوئی قدر مشترک نہیں رکھتیں‘‘۔ یہاں ہم ایک جدید دور کے انسان کو دیکھتے ہیں جو جدید تکنیکی آلات قبول کرتا ہے اور ان تمام ارتقائی تجزیوں ۔۔۔جنھوں نے معاشرے کو صدیوں سے جوڑا رکھا ہے ۔۔۔کی نفی کرتا ہے۔

جیسا کہScruton نشاندہی کرتا ہے، کہ ماحولیاتی خوف میں گہرے سیاسی عناصر موجود ہیں کیونکہ کئی سیاسی جماعتیں اپنی تشہیر اس بنا پر کرتی ہیں کہ عالم گیر قدریں یا Utopias چاہے کتنے ہی خیالی کیوں نہ ہوں معاشرے کی برائیوں سے نجات دلا سکتے ہیں۔ ساتھ ہی مقامی روایات صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں اور وہ سب کچھ بھی جس نے انسانی معاشرے کو عرصے سے جوڑا رکھا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انسان اپنی ثقافت، اس کے نمونوں او ر قدروں سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ نفرت انسان کو اپنی روائتی قدروں سے دور لے جاتی ہے اور انسان غیر ملکی علامات کو اپناتا ہے یہ سوچ کر کہ سرمایہ دارنہ ترقی Capital Progress قدرے بہتر ہے۔

فن تعمیر Architecture ایک تصویر کی مانند بین الاقوامی سرمایہ داری نظام کی خدمت میں مشغول ہے جو ہر انسان کے گھر کے صحن میں نظر آتی ہے۔ انسانی شناخت کو عالمگیریت کے لئے قربان کرنے سے انسانوں کے صدیوں پرانے روائتی عقیدے اور قدریں پامال ہوتی ہیں۔

آجکل کا جدید فن تعمیر ’’سرمایہ داری اور کھیت ‘‘ کی ثقافت کی خدمت میں مشغول ہے۔اس ثقافت اور تمدن کی قدریں اور عقیدے امریکا اور باقی دنیا میں رائج فن تعمیر کے قیام کی وجہ ہیں۔ترقی پزیر ممالک اس صورت میں ہر قدر کھونے پر مجبورہیں-- اپنی روائتی قدریں اور فن تعمیر -- اگر وہ مغرب کی پیروی کرتے ہیں۔

سرمایہ داری کا یہ نظام اربوں ڈالرزکی سرمایہ کاری کی بدولت ہے جس کے ذریعے غیر ملکی نمونے دنیا بھر میں خریدے اور بیچے جاتے ہیں۔ مغربی یونیورسٹیاں اور ثقافتی ادارے ترقی پذیر صنعتی ممالک کے مخفی وسائل تک رسائی حاصل کرنے کے لئے مغربی ارتقاء کی آڑ میں مقامی ثقافت کو تباہ کرنے کا ذریعہ ہیں۔ مضبوط تجارتی مقاصد اور اقتصادی استحصال کا گہریتعلق اور جدید معماروں کی بلاوجہ تشہیر اور ان کو باقی دنیا پر تھوپنا، ثقافتی قدروں کو نقصان پہنچا تے ہیں ۔ کئی مقامی حکومتیں ایسے نامور معماروں کو "Showcase" عمارات مثلاََ عجائب گھر بنانے کی دعوت دیتی ہیںیہ سوچ کر کہ ان کی بدولت ترقی آئے گی۔ جبکہ وہ مغرب کے ایسے ایجنٹ کو دعوت دے رہے ہیں جو مقامی ثقافتی ورثے کی نفی کر دیں گے اور یہ ورثہ نابود ہو جائے گا۔

نوجوانوں کو درس گاہوں میں اور میڈیا کے ذریعے ڈیزائن کے ایسے اشتہاری خاکوں سے متعارف کروایاجاتا ہے اور ان کو کہا جاتا ہے کہ آج سے ان کی قدر کی جائے۔ ان کو تلقین کی جاتی ہے کہ روائتی فن تعمیر کی قدروں سے نفرت کریں اور ان کو تباہ کر دیں۔

سائنس کا فائدہThe Incentive of Science

ہماری تجویز یہ ہے کہ نظام تعلیم میں ایسی اصلاحات لائی جائیں جو طالب علموں کو اپنی ثقافت سے نفرت پر مجبور نہ کریں۔ فن تعمیر کو بذریعہ سائنس پڑھنے سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ فن تعمیر کو ایک علمی جہد کے طریق پر دوبارہ قائم، صرف اس کے علم اور ادراک میں اضافے کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ انسانی احساسات، خیالات اور سائنس کے ادراک۔۔۔ بغیر فن تعمیر۔۔۔عملی نظریاتی خواہشات، فیشن اور انسانی ضرورت کا شکار ہو جاتا ہے۔لیکن اس عمل کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ فن تعمیر اور سائنس مختلف علوم ہیں اور ان کی ساخت بھی مختلف ہے۔ سائنس اور سائنسی تحقیق ایک جمع شدہ علمی ادراک کے استعمال کی بنا پر کام کرتے ہیں۔

سائنس دان تحقیق کے ذریعے اپنے علم کے دائرے میں اضافے کرتے ہیں اور اپنی تحقیقات کو باریک بینی سے جمع کرتے ہیں تا کہ کامیاب نتائج علم اور ادراک کے ذخیرے میں اضافہ کر سکیں ۔ اس مد میں سائنسی علوم کی مخصوص زبانیں بنائی جاتی ہیں تاکہ تحقیق کو آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے تحریر کے ذریعے بچایا جا سکے۔ علم و ادراک بذات خودمؤثر معلوماتی نظام پر منحصر ہے۔

علم وادراک کے جمع کرنے کا عمل سائنسدانوں کو ماضی کی تحقیقات کو بنیاد بنا کر ہر دفعہ پہیہ بنانے سے بچا لیتا ہے۔ سائنسی طریقہ کار میں گنجائش ہوتی ہے کہ فرسودہ اور پرانی تحقیق کو جدید علم و ادراک سے علیحدہ کیا جاسکے۔کوئی بھی نظریہ جو ناکارہ اور غلط قرار پا جائے رد کر دیا جاتا ہے یا اسے تاریخی حوالے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ نفی اس لئے ہوتیہے کیونکہ ایک جدید اور کار آمد طریقہ سامنے آتا ہے جو کسی بھی مظہر(Phenomena) کو پرانے طریقے سے بہتر بیان کر سکتا ہے۔ لہذاسائنس ہر وقت اپنے معلوماتی ذخیرے کی چھان بین کر رہی ہوتی ہے اور ساتھ ہی موجودہ علم و ادراک میں نظم و ضبط اور مطابقت کو برقرار رکھتی ہے۔ یہ نظام ایک با ترتیب اور جامع انداز میں سائنسی معلومات کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے کام کرتا ہے اور لائیبریریاں ایسا با ترتیب نظام بناتی ہیں جس کے ذریعے علم و ادراک کے وسیع اور روز بروز بڑھتے ذخائر کو سنبھالا جا سکے ۔ علم وادراک اس صورت میں ہی فائدہ مند ہوتا ہے جب اس کو باآسانی بازیافت (Retrieve) کیا جا سکے۔

اس کے برعکس فن تعمیر کے علم و ادراک کا ایسا نظام آج تک نہ بنایا جا سکا۔ بلکہ فن تعمیر کے میدان میں 1920 کے لگ بھگ ایسا واقعہ رونما ہوا جو سائنس میں ناقابل تصور ہے کہ ڈیزائن میں جدت لانے کے لئے فن تعمیر کے معلوماتی ذخیرے کو ختم کردیا گیا اور عذر یہ پیش کیا گیا کہ اس میدان کو نئے زمانے کے مطابق کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا گیاہے۔ جدت کے نام پر تبدیلی لانے والے لوگ گزشتہ جمع شدہ علم وادراک کو سنبھالنے سے بری الذمہ ہو گئے۔ ظاہر ہے کہ جب ان لوگوں کو علم و ادراک کو سنبھالنا ہی نہیں تھا تو انہوں نے کسی بھی با ترتیب نظام بنانے کو ضروری نہیں سم۔ اس وقت سے آج تک فن تعمیرمیں جدت کو تب ہی کارآمد اور کامیاب جانا گیا ہے جب یہ گزشتہ علمی بنیادوں کی نفی کرتی ہے۔

علمی خسارہ The Loss of Information

خلاف قیاس (Paradoxically) اس تباہ کن عمل کی وجہ سے سخت عقیدوں اور متضاد طریق نے جنم لیا ہے۔ معمار روز مرہ بنیادوں پر ایک باترتیب نظام کو بنانے اور اس کا اطلاق کرنے سے قاصر ہیں جو ان کے تعمیری طریقوں پر مبنی ہو۔ ہر مخصوص طریقے کے علم بردار اسے ہی صحیح جانتے ہیں اور باقی سب کو ردکر دیتے ہیں یہ کہہ کر کہ یہ فرسودہ، ناکارہ اور اخلاقی طور پر ناقابل استعمال ہیں۔ یہ ناقابل حل تنازعہ ہی نظام کی بے ترتیبی اور عدم استحکام کا باعث ہے۔

ڈیزائن کے طریقوں کی اسی صورت توثیق ہوتی ہے جب اس میدان کے خود ساختا خدااس طریقے کو صحیح مانتے ہیں اور یہ دفاعی حرکت صرف اس لئے ہی ہوتی ہے کہ تا کہ اس میدان کو ان کے لئے پراسرار اور ناقابل تسخیر بنایا جا سکے۔سائنسی بحث اس کے برعکس سخت ترین قواعد و ضوابط کے تحت کام کرتی ہے۔ سائنس تجربات کے ذریعے علم و ادراک کیاصولوں کی درستگی کی توثیق کرتی ہے اور یہ کہ اس علم و ادراک کے عمل کے ذریعے انسانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سائنسدان کسی بھی پرانے خیال و قیاس کو رد کر سکتے ہیں اگرچہ بہت سے لوگ اس قیاس کو صحیح جانتے ہوں اگر یہ قیاس کسی چیز کی وضاحت نہ کر سکیں۔ اختلافات ہوتے ہیں لیکن کثیرالمدت اور آخر کار تجرباتی بنیادوں پر سائنسدانوں کے بیچ اتفاق رائے ہو جاتا ہے۔

کئی معمار فن تعمیر کو اس سائنسی علم کی طرح نہیں سمجھتے کیونکہ وہ ثبوت کی بنیاد پر کام کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ جنگ عظیم دوئم کے دوران شہری اور تعمیری علم و ادراک کا ضیائع جو جدت (Modernist) کی بنیادوں پر تربیت پانے والے اساتذہ نے سکولوں میں متعارف کروایا کبھی بھی نہ ہونے پاتا اگر فن تعمیر کے میدان میں سائنسی ماڈل کا اطلاق ہوتا۔

اخذ شدہ علم و ادراک کو اس بے دریغ طریقے سے رد نہیں کرنا چاہیے۔ پرانی معلومات کومزید بہتر بنانا چاہیے، ایک وضاحتی نظام کے ذریعے۔

بدصورتی ایک غیر ضروری مسلکThe cult of ugliness

فن تعمیر کے نظریاتی مطالعے اکثر طلبہ کو پریشان کر دیتے ہیں کیونکہ اختلافانہ اور غیر واضح علم و ادراک کی بہتات ہے۔ اور یہ سب یکسر درست مانے گئے ہیں۔ طلبہ کو رائے کا حق نہیں دیا جاتا اور نہ ہی ان کے اساتذہ کو اور نہ ہی اس مخصوص کتاب کے مصنف کو۔

متنوع ڈیزائن کے طریق ۔۔۔مثبت تجزیوں کی آپس میں مشترک قدروں ۔۔۔کی بنا پر جوڑے جا سکتے ہیں۔ جدید نظریاتی درجہ بندی کے ذریعے فن تعمیر کی مختلف اقسام کو اس کے نصاب میں متعارف کروانا چاہیے۔ اس طریقے سے جدید اور پرانے فن تعمیر کے طریق آپس میں جوڑے جا سکتے ہیں۔ کچھ طریق بے معنی اور ناقابل استعمال قرار دے دئیے جائیں گے لیکن کوئی بات نہیں۔ اگردھیان سے دیکھا جائے تو آجکل استعمال میں آنے والے کئی اصول تعمیری بنیادوں پر نہیں بنائے گئے بلکہ خیالی اور نظریاتی بحث کا نتیجہ ہیں۔ فن تعمیر کی راہ ترقی میں ڈیزائن کے عقاعد کی اندھا دھن پیروی ہی سب