Chapter 12

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

"BATH ABBEY" انسانی نظر ایک منظر کو زیادہ تفصیل والے حصے سے دیکھنا شروع کرتی ہے۔۔۔اور پورا خاکہ جڑی ہوئی لکیروں کے ساتھ ساتھ نظر دوڑاتے ہوئے بن جاتا ہے اور یہ لکیریں "Scan Paths" کہلاتی ہیں۔ Image 169 Flickr CC user Matthew Kirkland

آرائش اور انسانی ذہانت ۔

آرائش اور اس کا کام یا عمل ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کائنات میں کوئی بھی ایسا جسم نہیں جس کو خالص آرائش قرار دیا جائے۔روائتی فن تعمیر میں۔۔۔جو قدرت سے جڑا ہوا تھا۔ ایسی تقسیم کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فن تعمیر کی انسانی مطابقت کا زوال اس وقت عمل میں آیا جب آرائش کو اُس کے کارآمد ہونے کے نظریے سے جبراً علیحدہ کیا گیا۔۔۔ یہ عمل انسانی تاریخ کا حالیہ باب ہے۔

صرف بیسویں صدی کے فن تعمیر کی بحث میں لوگوں نے آرائش کو اس کے عمل سے علیحدہ جاننا شروع کیا۔

دیکھئے " How Modernism got square"

(Mehaffy & Salingaros, 2013)

اس کتاب کا اہم مقصدیہ ہے کہ طرز اور ساخت کو ایک پورے نظام کے طور پر دیکھا جائے جو کہ ایک طبعی ماحول اور دیکھنے والے کو ملا کر بنتا ہے۔

کسی بھی چیز یا جگہ کا صارف پر اثر اُس چیز یا جگہ کا کام یا عمل ہوتا ہے ۔ کسی بھی آرائش کا اس کے صارف پر کچھ نہ کچھ اثر تو ہوگا۔ لہذا اصل تجربے کو خالص کام یا عمل کے کسی خاص عنصر سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا ۔ہماری میکانیکی تفریق جس کے ذریعے ہم کام کو آرائش سے علیحدہ کرتے ہیں سادہ مشینوں کے لیے سچ ہے لیکن جہاں پر انسانوں کا عمل دخل ہے یہ دلیل غلط ثابت ہوجاتی ہے۔

ڈیزائن کے عمل میں ماحصل زندگی کی خصوصیات اپنالے گا کیونکہ ہم آپس میں اثرانداز ہونے والے مختلف مراحل سے گذرے ہیں۔ یہ طریقہ ۔۔۔ استعمال اور مبہم ضروریات کی کم سے کم فہرست کی عام تسکین سے بہت دور ہے ہم یہ کیسے جان سکیں گے کہ جو ہم کاغذ یا کمپیوٹر پر ڈیزائن کررہے ہیں وہ تعمیر ہونے کے بعد ان ضروریات کو واقعی پورے کرے گا؟ ہم نہیں جان سکتے ۔ اصل میں صرف دریافت شدہ حل کو بار بار استعمال کرنے سے ہی ہم اپنے ڈیزائن میں کسی حد تک کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ پھر بھی ایک بنیادی سبق یہ ہے کہ ہم ڈیزائن کے ذریعے خالص کارآمدگی کی ضرورت کو پورا کرنے کا سوچ نہیں سکتے۔

ایک "سادہ" عمل بغیر کسی پیچیدگی کے ایک اچھا حل نہیں دیتا۔ اِس ارتقائی پیچیدگی کوخاطر میں نہ لانے کی وجہ سے کئی عملی حل فوراً تباہ کُن ثابت ہوئے ہیں۔۔۔ناقابل استعمال کیونکہ غیر انسانی ہیں۔ جیومیٹری کے توازن کی تلاش بذریعہ ان اصولوں کے جو ہم نے اس کتاب کے سابقہ مظامین میں تفصیلاََ پڑھے ہیں ۔۔۔اِس ضمن میں ہمارے مدد کرسکتے ہیں۔

تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کامیاب اجسام اور عمارت انتظامی توازن پر توجہ دے کر ۔۔۔جہاں آرائش اور اس کا عمل علیحدہ نہ ہوں۔۔۔ تعمیر کیے جاتے ہیں۔اور یہ بات عقل نہیں مانتی کہ ایک کے بارے میں بات کی جائے اور دوسرے کو نظرانداز کردیا جائے جیسا کہ قدرتی اجسام میں ہوتا ہے ۔ لہذا ہمیں ایسی اشیاء ڈیزائن کرنا سیکھنا ہوگاجن میں زندگی کی خصوصیت ہو اور مکمل ہو ں۔اس طرح کرنے سے آرائش اور عمل دونوں ہماری مخصوص توجہ کے بغیر تکمیل کو پہنچیں گے ۔ ماضی کے کچھ انوکھے ڈیزائن کے حل حیران کُن راز افشاکرتے ہیں۔ ہم جس حل کو خالص کارآمدگی کی نظر سے دیکھ رہے تھے وہ شاید جیومیٹری کی ترتیب کے مکمل ہونے سے وجود میں آیا ہو۔ اور یہ ہر پیمانے کے لیے سچ ہے ۔۔۔ Artifacts سے لے کر کمروں ، عمارتوں، شہری علاقوں وغیرہ تک ۔ یہ کام اورخوشی دونوں ساتھ ساتھ مہیا کرتے ہیں۔

ماحولیاتی معلومات کی شمولیت کے ساتھ وابستگی ہمیں ہمارے ماحول سے جوڑتی ہے۔ دیکھئے

"Intelligence and Information Environment"

(Mehaffy & Salingaros, 2012)

لہذا یہ حیران امر نہیں کہ ماحول کی معلوماتی خصوصیات ہماری حیاتیاتی ساخت کے لیے سنجیدہ نتائج رکھتی ہے ۔ اگرچہ یہ تحقیق ابھی جاری ہے ، لیکن یہ امر واضح ہے کہ ہماری ادراکی صلاحیت ماحولیاتی معلومات کے ذریعے بنتی اور اثرانداز ہوتی ہے۔

لیبارٹری میں مختلف تجربات نے ثابت کردیا ہے کہ جو جانور معلومات سے بھرپور ماحول میں رکھے جاتے ہیں وہ زیادہ ذہنی وسعت اور ذہانت حا صل کرلیتے ہیں اور یہ ساختی طبعی تبدیلیاں ہیں جو ذہانت پر ہمیشہ کے لیے اثر انداز ہوجاتے ہیں۔

یہ اثر آخرکار 1994 میں Carnegie Task Force کی ایک رپورٹ کے زریعے سامنے آیا، جس میں Minimalistic ماحول کے بارے میں انتباہ کیا گیا کہ یہ بچوں کے ذہنی ارتقاء کو ہمیشہ کے لیے تباہ کرسکتے ہیں ۔ اور جس قسم کی معلومات ہماری ذہانت کے لیے محرک بنتی ہے وہ منظم متوازن نمونے ہیں جو ہم نے اس کتاب میں تفصیلاً بیان کئے ہیں۔

دیکھئے "The Sensory Value of Ornament" (Salingaros, 2003) انسانون کے لیے اس مد میں سب سے بہترثبوت کلاسیکی موسیقی سے آتا ہے نہ کہ آرٹ یا فن تعمیر سے ۔ بچے جو کلاسیقی موسیقی باقاعدہ طور پر سیکھتے ہیں وہ سکول میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین میں بہترین ہوتے ہیں۔

ہمارا عصبی طبعی نظام ہمارے موروثی قدرتی ماحول کی معلومات سے نبردآزما ہونے کے لیے تیار کرتا ہے۔

جب انسان کچھ تحلیق کرنا چاہتا ہے تو ہمارا ادراکی ارتقائی نظام خودکار طریقے سے (Automatically) چیزوں کی مخصوص شکل بنا لیتا ہے جو اس مخصوص جیومیٹری کے توازن کو ظاہر کرتی ہیں۔یہ وہی قدرتی توازن ہے جس نے ہمارے ادراکی نظام کو بنایا تھا ۔ یعنی کہ ہمارا دماغ اپنی معلومات اِن بنائی گئی چیزوں کے ذریعے طبعی ماحول میں بھیجتا ہے۔

ان تمام باتوں کے لیے اہم اشارہ قدیم رکازیات (Paleo-history) سے ملتا ہے ۔ آجکل ایک اہم بحث چل رہے کہ کیا Neanderthal Man نے آرٹ اور آرائش کو تخلیق کیا جس کے بارے میں کئی محقیقین کا جواب نفی میں ہیں۔ یہ مضمون ہماری اپنی نوع (Homo Sapiens) انسان کے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ انسان نے آرٹ اور آرائش تخلیق کی ہے جو ہماری ارتقاء پذیر ذہانت اور ترقی ے لیے ایک ضروری عنصر ہے ۔ Neandarthals نے اِس کے برعکس اپنی 200,000 سالہ دور میں اپنی ٹیکنالوجی اور ثقافت میں کوئی ترقی نہیں دیکھائی ۔ اور آخرمیں ہم نے شاید انہیں ماردیا۔ یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہماری اولین ذہانت ۔۔ جس نے ہمیں ارتقائی فائدہ دیا ہےّ ّّّ۔۔۔کسی نہ کسی طرح آرائشی اشیاء کی تخلیق سے جڑی ہوئی ہے ۔ پچھلے 50 سالوں میں سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ ہم ماحول میں موجود معلومات سے کس طرح تعلق پیدا کرتے ہیں ۔ انسانی آنکھ ایک منظر کو تفصیلی گہرائی ، تفریق ، تضاد ، اور گھماؤ کے زاویوں سے دیکھتی ہے۔

دیکھئے "The Sensory Value of Ornament" (Salingaros,2003)

ان تمام زاویوں کی جڑی ہوئی لکیروں سے پھر ایک خاکہ بنتا ہے اِن لکیروں کو "Scan paths" کہتے ہیں ۔ انسان کا بصری اور ذہنی نظام پہچانتا ہے اور ایک خاکا مختلف زاویوں کو آپس میں جوڑ کر معلومات حاصل کرتا ہے ۔ یہ دریافت Alexander کے "پندرہ بنیادی اصولوں" کی توثیق کرتی ہے ۔ دیکھئے

(Chapter 10 of UNIFIED ARCHITECHTURAL THEORY ONLINE) اور ان تین ساختی اُصولوں کی جو میں نے تجویذ کئے ۔ (Salingaros,1995)

مذید تحقیق اس امر کو بیان کرتی ہے کہ ہم اپنے ماحول کو اپنے اذہان میں محفوظ معلومات کے ذریعے کیسے دیکھتے ہیں اور پھر یہ معلومات ہمارے عمل اور فیصلوں کی کس طرح نگرانی کرتے ہے۔ ہمارے زندگیوں کا ایک بڑا حصہ ان قدرتی عوامل کا مرہون منت ہے یعنی بیرونی معلومات کو دیکھنا/ محسوس کرنا ، جمع کرنا اور ردعمل ظاہر کرنا ۔ مختلف ساختوں کے لیے ایک ردعمل ہمارے نظام میں پہلے سے موجود ہے ۔ جدید دور کے آغاز سے ہم عمارتی ڈیزائن اور اپنے جسمانی رویوں میں تضاد کا سامنا کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جدید عمارات کے معمار جان بوجھ کر بصری اور شکلیات جو انسانی ادراک کے لیے ضروری ہیں کو رد کردیتے ہیں۔ یہ حادثاتی نہیں ۔ ادراکی توازن کی نفی اور رد کرنا ایک منظم فعل ہے لہذا جان بوجھ کر کیا جاتا ہے ۔

میں ایک مفروضہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ آرائش انسانی ذہانت کا اولین مظہر ہے ۔ تعمیر میں جھوٹا، مگر عام مانے جانے والا مفروضہ یہ ہے کہ آرائش عام طور سے قدرت کی نقل ہے لیکن یہ سچ نہیں ہے ۔ آرائش انسانی دماغ کا اچانک تخلیقی عمل ہے ۔ کوئی بھی قدرت سے مشابہ آرائش تخلیق کرسکتا ہے لیکن وہ الگ بات ہے۔

اوپر دیے گئے مفروضہ کا ثبوت ان انفرادی عصبہ (Neurons) جن کا مخصوص فعل آرائشی عناصر کو پہچاننا ہے ، سے ملتا ہے۔ دیکھئے "The Sensory value of ornanaments" ( Salingaros, 2003) ) ۔

ہر کوئی ان آنکھ کے پردے کے ان مخروظی خلیوں (Retinal Cone Cells) کے بارے میں جانتا ہے جو مختلف رنگوں سے اثرانداز ہوتے ہیں ۔ اور بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ یہی خلیے باریک تفصیلات کو دیکھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں اور "رنگ کے ٹھہراؤ " (Colour Constancy) کا مظہر رنگ کے احساس کو دماغ کی اعلی حسابی صلاحیت سے جوڑتا ہے ۔ ہم خود بخود مختلف روشنیوں میں اصل رنگوں کو پہچان لیتے ہیں تاکہ اصل رنگ پہچانا جاسکے۔۔۔ اورصرف اعلٰی ذہانت والا دماغ رنگ دیکھ سکتا ہے۔

انسانی دماغ کی بیرونی تہہ کے عصبوں (Cortical Neurons) کی موجودگی کے بارے میں سائنسی دائرہ کار کے باہر بہت کم لوگ جاتے ہیں ، جو صرف آرائشی عناصر سے اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس میں صلیب ، ستاروں Concentric دائروں ، حدود والی صلیبیں اور پیچیدہ Symmetrical اجسام کے لیے مخصوص ردعمل شامل ہیں۔ یہ نمونے ہمارے ادراکی عصبی نظام کا قدرتی حصہ ہوتے ہیں۔کیونکہ یہ عصبے کسی وجہ سے موجود ہیں لہذا ہمیں ان کو حرکت کی طرف راغب کرنا چاہئے۔

انفرادی عصبے جو پیچیدگی کے اعلٰی نمونوں سے اثرانداز ہوتے ہیں دماغ کے انتہائی اعلی حصے میں موجود ہوتے ہیں جیسے جیسے انسانی دماغ ترقی کرتا ہے ویسے ہی Pattern-Sensitive عصبوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ یہ دریافت منظم بصری پیچیدگی کو احساس اور آرائش کو ذہانت کے ارتقاء سے خودکار طریقے سے جوڑتی ہے۔ اب ہمیں اس امر کو بیان کرنا ہے کہ جب یہ حیرت انگیز آلہ جس کے ذریعے ہم اپنے ماحول کی متوازن جیومیٹری اور اسے تخلیق ہونیوالے Artifacts اور اجسام ، مایوس ہوجاتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ ہمارے اجسام فعلیاتی اور نفسیاتی تکلیف کا شکار ہوجاتے ہیں۔ Minimalist اور معلومات سے بے بہرہ ماحول ذہنی دباؤ کا باعث بنتے ہیں۔بے رنگ اور سپاٹ ماحول ضروری نہیں کہ سن کرنے والے اثرات مرتب کرے لیکن ذہنی دباؤ ضرور پیدا کرتا ہے ۔ اس کی وجہ Minimalistic ماحول کے وہ اشارے جو ہمارے اجسام کی Pathalogy پر اثرانداز ہوتے ہیں ۔ بیماریوں کا ایک گروہ جس میں ہم ایک عام معلومات سے بھرپور ماحول میں رہتے ہوئے بھیminimalist ماحول کو محسوس کرتے ہیں جو خطرناک ہے ۔

دیکھئے "The Sensory Value of Ornaments" (Salingaros, 2003)

مثلاً Macular Degeneration( انتہائی بصری نقصان) اور Retinal Detachment (آنکھوں کے بیرونی حصوں کا علیحدہ ہونا) بے چینی پیدا کرتے ہیں کیونکہ ہم ماحول کی تصویر کو دیکھنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ یا سفید موتیا (Cataract) عدسہ جسم (Eye Lens) کو غیر شفاف کردیتا ہے ۔یہ تمام بصری مرض ہیں۔ دماغ پر اثرانداز ہونے والے دوسرے مرض بھی ایسے ہی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لقوے(Stroke) سے ہونے والے دماغی زخم(Cerebral Lesions) یا کاربن مونو آکسائیڈ زہریلی گیس سے ہونے والے "Visual agnosia" ( بصری لا ادراکیت ) کی وجہ سے اچھا خاصا دیکھنے والا انسان صرف اپنے دماغ کی صلاحیات کے اثرانداز ہونے کی وجہ سے دیکھ نہیں سکتا ۔ ایسے لا ادراکی مریض متوازن ساخت کو پہچان نہیں سکتے۔دماغی نقصان کی ایک اور قسم جو Minimalist ماحول کی نقل کرتی ہے "Cerebral Achromatopsia" ہے جس میں مریض صرف Grey (سرمئی ) رنگ دیکھتے ہیں ۔ یہ مرض Color Blindness (رنگ اندھاپن ) سے زیادہ شدید ہوتا ہے کیونکہ انسان صرف ایک رنگ دیکھ پاتا ہے ۔ انسانی اشکال اور خوراک نفرت انگیز بن جاتے ہیں کیونکہ وہ موت کا اظہار کرتے ہیں اور یہ بد قسمت مریض اپنی تمام زندگیاں مایوسی کے عالم میں گذار دیتے ہیں۔

یہ تمام غلم و ادراک فن تعمیر کو ایک نئی سمت دے رہا ہے۔ جس کے لیے لوگ تیار نہیں ہے خصوصاً وہ جو دور حاضر کے تعلیمی نظام سے تعلق رکھتے ہیں لیکن یہ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ظاہر کرناہے کہ ڈیزائن شدہ ماحول کے صارفین پر کیا مثبت اور منفی اثرات ہوتے ہیں۔یقیناً اِسے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے تاکہ فن تعمیر کے طلبہ اِس کو پڑھنے پر مجبور ہوں۔ شاید یہ سب سکھانے کا ایک مؤثر طریقہ یہ ہوگا کہ اس طریقے سے عمارات بنائی جائیں جو اپنے صارفین پر مثبت اثراتمرتب کرتی ہیں اور دوسرے معمار ان تعمیر شدہ مثالوں سے سیکھیں۔ اور طرز زبان کے تناظر میں یہ ممکن ہے کہ اس طریقہ ادراک کو تعمیر سے ملا کر ایک دلچسپ چیز بنائی جائے جو ہماری توجہ چاہے۔