CHAPTER 7

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

Jyvaskyla یونیورسٹی، جو Alvar Aalto نے ڈیزائن کی ہے۔ تنقیدی علاقائیت کی ایک مثال ہے۔ تا ہم Salingaros کے مطابق تنقیدی علاقائیت فنِ تعمیر کو جدت کے اصولوں سے علیحدہ نہیں کر سکی۔169 Nico Saieh

فنِ تعمیر کے مستقبل کے معمار ہونے کی بدولت آج کے طلباء کو اپنے پیشے کے کردار اور ذمہ داریوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس پیشے کا انسانی بقاء اور تجربے سے کتنا گہرا تعلق ہے۔ ایک نئے تجویز کردہ تعلیمی نظام نے یہ رستہ دیکھا یا ہے کہ ماحول سے مطابقت رکھنے والی عمارات بنائی جائیں جو لوگوں کی مانگ (Client Demands) کے مطابق ہو۔

مگر پھر بھی کئی تعمیراتی ادارے ایک نصابیr) (Curricula ماڈل کا پرچار کرتے ہیں جس کی بقاء کی وجوہ اس کی تصوراتی بنیاد کا طریقہ اور خاص نظریاتی نظام ہے۔ اس حمایت کی جڑیں بیسویں صدی کے آغاز کی غیر روائتی تحریکوں میں نظر آتی ہیں۔ نظام میں اصلاحات لانا ناممکن ہوتا ہے ۔۔۔جب تک کہ اس نظام کی فرا موش کردہ نظریاتی بنیادوں کو خاطر میں نہ لایا جائے۔

ارتقائی جبر (Evolutionary Compulsion) نوع انسان کو اپنے اجسام اور اذہان کے درمیان تعلقات کا ایسا نظام بنانے پر مجبور کرنا ہے جس کے ذریعے ہم اپنی دنیا اور وجود کو سمجھ سکیں۔ یہ تعلقات ہمیں ہماری بہبود ، لگاؤ اور حیات کا احساس دلاتے ہیں۔ انسانی احساسات کے مادی اور بصری پہلوؤں کی بنا پر انسانی جسم نے بنی نوع انسان کے دنیا کے ساتھ ابتدائی تعلقات استوار کئے ہیں۔

ارتقائی عوامل نے انسان کے اعصابی نظام کی ایسی نمو کی ہے کہ وہ اپنے بلاواسطہ ماحول کے حالات سے نبرد آزما ہو سکے۔ اور پھر اردگرد موجود علم وادراک کے نظام - قدرتی ماحول میں پنہاں طبعی اور بصری ادراک - نے انسانوں کو بڑی کامیابی سے رہن سہن کی اشیاء (Artifacls) تخلیق کرنے کا طریقہ سکھایا۔ یہ تخلیقات زیور سے لے کر فرنیچر، عمارات اوربالاآخرپورے کے پورے شہر ہوتے ہیں۔

انسانی جذبات کی بدولت جس طرح انسانی دماغ ارتقاء سے گزرتا گیا ایک وقت ایسا آیا کہ انسانوں نے مبہم (Abstract) خیالات کو طبعی شکل دینا شروع کر دی جو اس روز مرہ کی طبعی حقیقت کے باہر تھی۔ موضوع/ مضمون(Subject/Object) کے احساساتی فرق نے انسانی سوچ کو ایک متبادل حقیقت تخلیق کرنے پر اکسایا ہے۔ یہ ذہنی صلاحیات انسانی سوچ اور تحقیق کو صدیوں سے چلا رہی ہیں۔ جس کی وجہ سے انسانی دماغ نے کئی عظیم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ بنی نوع انسان کئی مظالم کا شکار ہوتی ہے۔ گذشتہ صدی میں فن تعمیر - ہمارے اجسام کے باہر کی تخلیق کردہ دنیا - دور حاضر کے نظریات کی ایسی دانشورانہ تخلیق ہے جو خا لصتاََ موضوعی دماغ کی اختراع ہے۔

ہمارے اردگرد کا علم و ادراک آجکل بہت اہم ہے کیونکہ طلبہ تصویری بنیادوں پر انحصار کرنے لگے ہیں۔ قدرتی علم وادراک کو دانشوارانہ تجرید(Intellectual Abstraction) سے تبدیل کرنے سے وہ تمام ضروری ادراک رد ہو جانا جس کی انسان کو اپنی باہر کی دنیا سے تعلق استوار کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔

بیسویں صدی کے دوران آرکیٹیکٹس نے اصل کی جگہ تصاویرکا استعمال لفظوں کی مدد سے کیا ۔۔۔تا کہ ان کے علمی لحاظ سے کمزور خاکوں کا متبادل ہو سکے۔ اس کے بعد سیاسی اور نجی طرز زبان کے استعمال کا آغاز ہوا جس کو پوشیدہ فلسفیانہ ادراک کی جگہ استعمال کیا گیا اور تعمیری دنیا سے اس ادراک کا خاتمہ ہو گیا۔

تنقیدی علاقائیت اور عقلی پٍٍٍٍشکش (Critical Regionalism & Intellectual Submission)

تنقیدی نظریے(Critical Theory) کا تنقیدی علاقائیت کے نظریات کے ذریعے فن تعمیر کے میدان پر گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اس خود اختلافی نظریے کا پرچار کرنے والے کہتے ہیں کہ ثقافت اور روایات ختم ہو چکی ہیں اور مقامی فن تعمیر کو جدید یکسانیت کے مطابق ہو جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ مقامی نمونے اور طریقے محض ماضی کی یادہوتے ہیں لہذا بین الاقوامی جدت کے مبہم جمالیاتی طریقوں (Abstract Aesthetics) کا استعمال کیا جائے۔ اور جو تعمیری بیان اس محدود جدید اور مبہم ادراک سے باہر ہو رد کردیا جائے۔ نتیجتاََ مقامی فن تعمیر اپنی ثقافت سے بے بہرہ ہو جاتا ہے۔

اساتذہ بھی کسی ٹھوس تعمیری نظریے (Architectural Theory) کی نا موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سیاسی نظریات سے سیکھے گئے طریقوں کا طلبہ پر اطلاق کرتے ہیں اور انھیں مجبور کرتے ہیں کہ عقلی شعور کی بجائے سیاسی ادراک کا استعمال کریں۔ اس طرح شواہد رد ہو جاتے ہیں اور فن تعمیر کے میدان پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

فلسفہ۔۔۔ فن تعمیر کی رہنمائی کرتا ہے (Philosophy Informs Architecture)

عام طور پر فن تعمیر اور شہریت (Urbanism) کے ادراک کے لئے فلسفے سے رجوع کرنے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ کیونکہ یہ دونوں میدان سماجی رجحان سے گہرا تعلق رکھتے ہیں ۔۔۔ لہذا فن تعمیر کا طالب علم مسائل سے بہتر طور سے نبرد آزما ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ وضاحت صرف اس لئے دی جاتی ہے تاکہ طلبہ کو براہ راست فن تعمیر کا میدان ایک خالی تختی (Blank Slate) یا Tabula Rasa ہو اور برملا اس امر کے اعتراف سے گزیر ہو کہ ان دو میدانوں کا علم ادراک کبھی موجود تھا۔ اور اگر ایسا کیا جائے تو اس امر کی وضاحت کیسے کی جائے گی کہ جدت کی تحریک کی 70 سالہ حکومت کے دوران فن تعمیر اور شہریت کی 200 سال پرانی تاریخ کس طرح تباہ، رد یا نظر انداز کی گئی ۔ لہذا فن تعمیر کے طلبہ کو فلسفے کی طرف مائل کیا جاتا ہے تا کہ حقیقی، نئے اور تاریخی طور پر متعلقہ تعمیری نظریات کو نظرانداز کیا جا سکے۔

اب یہ عالم ہے کہ ’’فن تعمیر کے نظریے‘‘ صرف درس سے زیادہ کچھ نہیں اور طلبہ کو اصل دنیا کے معیار کے فقدان کی وجہ سے جدت کے نظریات پر بھروسہ کرنا سکھاتے ہیں۔ طلبہ کے نظریات گروہ بندی کی نظر ہو جاتے ہیں اور اس طرح صرف وہ علم و ادراک ذخیرہ کیا جاتا ہے جو اس سانچے میں فٹ ہو سکے جو جدت کے اصولوں کے مطابق ہوباقی سب رد کر دیا جاتا ہے۔

فن تعمیر کے میدان کو مستقبل میں سیاسی اور فلسفیانہ بحث سے علیحدہ ہونا چاہیے۔ صرف اساتذہ ہی اپنے طلبہ کو یہ سکھا سکتے ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب فن تعمیر کے نظریات کی بنیادوں کو خالصتاََ تعمیری اصلاحات کے ذریعے بیان کیا جائے۔ فن تعمیر کے تعلیمی اداروں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ڈیزائن کے لئے خالص تعمیری بنیادوں کو پڑھایا جائے۔

فن تعمیر کے طلبہ کو بالاآخرفلسفہ ضرور پڑھنا چاہیے لیکن یہ اس صورت میں فائدہ مند ہو گا جب وہ فن تعمیر کے میدان کو صحیح طریقے سے جان نہ لیں اور یہ فلسفہ مثبت اور انسان شناس ہو۔ تاریخ میں مختلف فلسفیوں نے اس امر پر زور دیا ہے کہ انسان کو کائنات سے تعلق قائم کرنا چاہیے لیکن اکثر معمار ایسے علوم کو نہں پڑھتے۔

ہم ایک ذہانت کی بنیاد والا ڈیزائن(Intelligence-Based Design) تجویز کرتے ہیں جس کی بنیاد فلسفہ ہو۔ انسانی مطابقت رکھنے والا تعمیراتی نظام اور شہریت بنی نوع انسان کا احترام کرنے سے ہی تکمیل پاتے ہیں۔ایسا لا محدود فلسفہ موجود ہے جو انسانیت کو قدرت اور اسے شاندار افکار سے جوڑتا ہے۔ Christopher Alexander 5 5 5 (2001-2005) نے اپنی چار جلدوںThe Nature of Order میں مطابقتی فن تعمیر کی فلسفیانہ بنیادوں کی دلیل پیش کی ہے۔

انسانیت کی بنیاد

ایسے فلسفی جن کی وہ تحریریں جو بنی نوع انسان کی پائیداری سے متعلق ہیں ان انسانی عوامل کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو سائنسی دائرہ کار سے باہر ہیں۔ اور ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھاتے ہیں۔ اخلاقیات کا تاریخی تصور کل عالم کے تمام فلسفوں میں بار بار نظر آتا ہے۔

روائتی مذہبی تحریروں کی اساس اخلاقی قدریں ہیں جو انسانوں کو حیوانوں سے قدرے مختلف کرتی ہیں لیکن اخلاقیات کا یہ سبق فن تعمیر میں شامل نہیں کیا گیا۔ جو آج بھی چند مغربی فلسفیوں سے رجوع کرتا ہے جو ’’فن تعمیر کو فن تعمیر کے لئے‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ اور یہ دیکھتے ہوئے کہ عمارات کتنی غیر انسانی ہوتی جا رہی ہیں ان کے پیچھے موجود طاقت تباہی کی طرف لے جا رہی ہے۔

تباہی اور انسانیت کا اختلاف مکمل اور غیر متزلزل ہے لہذا ہمیں فلسفیوں اور تحریروں کو طلبہ کے لئے دھیان سے چُنا ہوتا ہے۔ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داری سے اپنے عقائد کی پیروی کے لئے سبکدوش نہیں ہو سکتا۔