CHAPTER 9-A

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

Antoni Gaudi/Casa Mila چیزیں میں زندگی کا احساس دیکھنے والے، استعمال کرنے والے اور چیز کے آپس کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ Image (c) Samuel Ludwig

فن تعمیر کا ایک بالکل نئے نقطہ نظر یعنی منظم ربط سے جس کو Christopher Alexander 'Wholeness' کہتا ہے۔۔۔ جو کئی رجحانات کو یکجا کرتا ہے۔۔۔کا مطالعہ کرنا چاہئیے۔ آرائش اور اس کے فعل، عمارات اور ان کے ماحول اور خوبصورتی اور اس کی افادیت کے روائتی امتیازات دھندلے ہیں۔ ہم Artifacts اور اجسام میں ’’زندگی‘‘ ڈھونڈ سکتے ہیں جو ہمارا ان اشیاء کے ساتھ تجربہ ظاہر کرتا ہے۔

آگے چل کر اس کو رس میں ہم مختلف صورتوں کی گنتی کریں گے اور متعین حقداروں (Parameters) کا شمار کریں گے جو کسی شے میں زندگی کا احساس دلاتی ہے۔ یہ مقداریں اس امر کی دلیل ہونگی کہ زندگی کے مظاہر انفرادی مزاج کا عکاس نہیں بلکہ کافی حد تک لوگوں میں قدرے مشترک ہیں۔

اس کہاوت کے ساتھ مسئلہ ہے جب ہم کہتے ہیں کہ ہمیں یہ چیز پسند ہے اور یہ زندگی کے درجہ کے احساس جیسی نہیں ہے۔ اکثر بہت بدصورت اور غیر انسانی عمارات۔۔۔ بنانے والے آرکیٹیکٹ اور بنوانے والے کلائنٹ دونوں کو پسند ہوتی ہے۔ اور ہم یہ جانتے ہیں کہ کھربوں ڈالر کی اشتہاری صنعت صرف اس اصول پر کام کرتی ہے کہ ہماری پسند اور ناپسندکوManipulateکیا جاسکے۔

چیزوں میں زندگی کا احساس دیکھنے والے۔۔۔ استعمال کرنے والے۔۔۔ اور چیز کے آپس کے تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ تعلق علم الحیات(Physiological) ، باہمی وجدانی انحصار (Intuitive Interdependence) جس کو ہم نظر انداز تو کر سکتے ہیں لیکن بدل نہیں سکتے، سے پیدا ہوتا ہے۔ Alexander Artifacts' اورStructures کے جذباتی تعلق کی خصوصیات درج ذیل بیان کرتا ہے۔

1 ۔ ہمیں قوت بخش احساس حاصل ہوتا ہے۔

2 ۔ اگر ہم راہیں تشکیل دینے کے عمل میں شامل ہوتے ہیں تب بھی ہمیں قوت بخش احساس ہوتا ہے۔

3 ۔ جب ہم اس تعلق کی شناخت اور ذرائع ابلاغ سے اثر انداز پسند کے فرق کودیکھ لیتے ہیں تو ہم جان لیتے ہیں کہ ہم دوسرے لوگوں سے اتفاق کرتے ہیں۔

4 ۔ یہ محض جمالیاتی فیصلہ نہیں بلکہ زندگی اور ثقافت کے گہرے نقوش سے مربوط ہے۔

5 ۔ یہ تعلق شمار کیا جا سکتا ہے اور یہ صرف انفرادی رائے سے مربوط نہیں ۔

دو چیزوں اور اپنے درمیان مثبت تعلق ایک متناسب درجے کے ذریعے جانچنا آسان ہے۔ یہ ایک نفسیاتی چال پر انحصار کرتا ہے۔ یہ چال ہمارے ذہن کو دو چیزوں کے درمیان منظم پیچیدگی کو تقابلی گنتی کے ذریعے ، جو قطعی نہیں ہے، سمجھاتی ہے۔

Alexander کا ’’خود کا آئینہ‘‘ Mirror of Self ٹیسٹ یہ سوال کرتا ہے کہ کن دو چیزوں کے ساتھ تجربہ میری بہتر عکاسی ہے۔ ہمیں اپنی شخصیت، طاقت، کمزوری، انسانیت، جذبات، قابلیت اور زندگی کے تجربا ت کو ان دو چیزوں کی ساخت میں پنہاں سمجھتا ہے۔ پھر ان دونوں میں سے وہ کون سی چیز ہے جو میرے وجود کی وفادار نمائندگی کرتی ہے؟

Andrea' Palladio/(La Rotonda) Villa Capra

ٰImage (c) Flickr CC user 'Sebasla Giralt

Alexander نے دیکھا کہ 80% سے زیادہ لوگ اس چیز کا چناؤ کرتے ہیں جس میں زندگی کے آثار زیادہ ہوتے ہیں بجائے کسی اور شمار کے۔

یہ ٹیسٹ ہمیں ان ترجیہات اور رائے سے دور کرتا ہے جو ہم بیرونی دنیا سے سیکھتے ہیں اور جو اکثر ہماری اندرونی کیفیت سے مختلف ہوتے ہیں۔ اور خوبصورتی کے بارے میں انفرادی اور متعصب خیالات کو بھی رد کر دیتا ہے جو ہمیں ہماریاصل سے دور کرتے ہیں۔

ہماری پسند اور ناپسند کو بڑے طریقے سے ڈھالا گیا ہے تا کہ ہم فیشن اور صنعتی اشیاء کے بہترین صارفین بن جائیں۔ ’’خود کے آئینہ‘‘کے ٹیسٹ کا بار بار استعمال ہمیں نہ صرف اس طریقے میں قابل بنا دیتاہے بلکہ دوسروں کی رائے، تصاویر اور خیالات سے بھی آزاد کر دیتا ہے۔ ہم زندہ اجسام کو سمجھنے میں ہوشیار ہو جاتے ہیں۔

اب اس بحث کو آگے بڑھاتے ہیں: ہم پہلے سے ہی دنیا میں رہتے ہیں جہاں پر زندہ اجسام کے ساتھ ہمارا تعلق ثقافت اور تعلیم بنائے رکھتے ہیں پھر ہمیں کس طرح ہمارے احساسات سے علیحدہ کیا جا سکتا ہے؟ کوئی ہمارے زندگی کو پہچاننے کی صلاحیت کو کیسے رد کر سکتا ہے اوریہ چاہیئے کہ پہلے ہم اسے نظر انداز کریں اور پھر اس صلاحیت کو بھول جائیں۔ طریقہ یہ ہے کہ ہماری توجہ ہٹائی جائے اور جھوٹ موٹ کے احکام کے ذریعے ہمیں ضروری تعلقات اور سمجھ بوجھ کے نقشے بنانے سے روکا جائے۔

دنیا کے ساتھ اجتماعی تعلق کے دو تصورات موجود ہیں پہلا یہ کہ ہم اپنے ادراک کے نظام کے ذریعے دنیا سے براہ راست تعلق کا ایماندرانہ تصور بناتے ہیں جو کہ باقی بنی نوع انسان کے ساتھ قدرے مشترک ہے۔ اور دوسرا تصور یہ کہ ایک پوری قوم کو دنیا کے بارے میں ایک جھوٹا تصور بنانے پر مجبور کیا جائے۔ اس صورت میں یہ سچ نہیں ہوتا بلکہ صرف تعمیری خاکہ ہوتا ہے۔

’’خود کے آئینہ‘‘ کا ٹیسٹ ہمیں اس صورت حال سے نکلنے کے تمام طریقے سمجھاتا ہے۔ اور اگر ہم ایک جھوٹی دنیا میں قید ہو جائیں تو اس کا استعمال ہمیں اس سے نکلنے میں مدد دیتا ہے۔ جب ایک چیز یا خاص ماحول انسانیت پر اثر انداز ہو تو ہم یہ ٹیسٹ استعمال کر سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا چاہیئے کہ اس خاص ساخت سے تعلق کی وجہ سے کیا میری اپنی انسانیت کی سمجھ بڑھ رہی ہے یا کم ہو رہی ہے یہاں پر ہمیں میکانیکی تہذیب بھلا کر اپنے اندرونی جذبات کے وجدان پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔اس ٹیسٹ کے ذریعے ہم قدرت کی درجہ بندی، تنظیمی ڈھانچے، قدرتی مواد کی منظم پیچیدگی اور چیزوں کے خط کی خصوصیات جن کے ذریعے وہ زندہ نظر آتی ہیں ، کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ جب ہم ایک خاص ماحول سے تعلق بناتے ہیں تو یہ اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ہم اپنے آپ کو اس کا حصہ سمجھتے ہیں، اس میں پرسکون ہوتے ہیں اور ہم اپنی زندگیوں اور عوامل کو بہتر طریقے سے سر انجام دے سکتے ہیں۔ یہ فرحت کا احساس شعوری طور پر ہمیں محسوس نہیں ہوتا۔

The Erechtheion in Athens اکثر ہم ایسی اشیاء اور عمارات سے تعلق محسوس کرتے ہیں جن میں کئی نقائص ہوتے ہیں ۔ آدھی تباہ شدہ عمارات، قدیم اشیاء جن کے حصے تباہ شدہ ہوں وغیرہ۔ یہ سب ان کی کشش کو کم نہیں کر سکتا Image (c) Flickr cc user Mark (Progressienuk)

سیاح طویل مصافت طے کرکے ان کھنڈرات کو دیکھنے اور محسوس کرنے جاتے ہیں۔ Collectors قدیم قالین خریدتے ہیں جن میں سوراخ ہوتے ہیں۔’’خود کے آئینہ‘‘ کا ٹیسٹ ہمیں ثبوت و شواہد کی بنیاد پر ڈیزائن کے اطلاق کے لئے بنیادی آلہ مہیا کرتا ہے۔ اس طریقہ کار کے دو پہلو ہیں۔ پہلا طبی ماحول سے اخذ کیا جاتا ہے، عمارات اور ماحول کے انسانی صحت پر اثرات کو ناپتا ہے۔متبادل ڈیزائن کی اقسام کا آپس میں موازنہ ان کی شفاء دینے کی خصوصیات کی بنا پر کیا جا سکتا ہے۔ ان مریضوں کے اعداد و شمار جو مخصوص ماحول میں شفایاب ہوتے ہیں۔ ہسپتال کے ڈیزائن سے شروع کرکے، ثبوت و شواہد کی بنیاد کا ڈیزائن دیگر عمومی ماحول میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

CHAPTER 9-B

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

The Pruitt-Igoe Development in St Louis ’’اگر لوگوں نے ’’خود کے آئینہ‘‘ کے ٹیسٹ کا اطلاق کیا ہوتا تو ہم کئی غیر انسانی ماحول بنانے سے گریز کر سکتے تھے جو پچھلی چند دہائیوں میں تعمیر ہوے ہیں۔ اس کی ایک قسم وہ انتہائی لمبی اپارٹمنٹ کی عمارت ہے، جو ایک آٹھ منزلہ ڈبے میں ہزاروں لوگوں کو رہائش مہیا کرتی ہے‘‘۔

ٰImage (c) US Geological Survey via Flickr cc user Michael Allen

ثبوت کی بنیاد پر منحصرڈیزائن ۔۔۔سکولوں کے ڈیزائن کے لئے تیزی سے بڑھتا ہوا معیار ہے۔ (دیکھئے Peter C. Lippman کی کتاب (Evidence Based Design of Elementary and Secondry Schools, 2010) لیکن موجودہ اطلاق، قابل تعریف لیکن کچھ عناصر کے بغیر ہے جو مطابقتی ڈیزائن کے لئے ضروری ہیں:۔ Biophilia (زندگی اور زندہ دنیا کو سرہانہ) ، ماحولیاتی ذہانت اور خاکوں کی زبان (Pattern Language) ۔ یہ تمام ایک ساتھ کام کرتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ڈیزائن کے نتیحہ حاصل ہو سکے۔

ثبوت کی بنیاد پر منحصر ڈیزائن ایک آرکیٹیکٹ کو ڈیزائن اور اس کی مختلف اقسام کا اندازہ لگانے میں مدد کرتا ہے تا کہ یہ دیکھا جا سکے کہ انسانوں کے لئے فائدہ مند ہیں کہ نہیں۔ یہ طریقہ مطابقتی ڈیزائن کے لئے باخبر انتخاب میں مدد دیتا ہے اور ڈیزائن کے ارتقائی عمل میں ہر درجہ پر نظر رکھی جاسکتی ہے۔

ثبوت کی بنیاد پر منحصر ڈیزائن کا دوسرا پہلو فیڈ بیک (Feed Back) کا استعمال ہے۔ مطابقتی ڈیزائن تکرار کے عمل سے وجود میں آتا ہے جہاں ہر قدم پر گھٹتی یا بڑھتی خوشحالی اس امر کا ثبوت ہے۔ اس عمل میں فارمولا یا مبہم اصول اور تصاویرکا استعمال نہیں ہوتا۔

یہ طریقہ اس صورت میں کامیاب ہے جب ڈیزائن کے عمل کو ارتقائی اور کئی تر تیب وار(Adjustable) درجوں کے ساتھ منظم کیا جائے۔ اگر آرکیٹیکٹ یا ڈیزائینر ایک ہی درجہ پر حل نکال لے تو یہ مطابقتی ڈیزائن نہیں ہو گا۔

ثابت کردہ ڈیزائن اس صورت میں بھی کا م نہیں کرتے جب وہ غیر تجربہ شدہ Prototypes کے طرح ہوتے ہیں۔ آج کیوں، کئی معیاری، عمارتی اقسام بار بار نقل کی جاتی ہیں اور ان کو مطابقت کے شواہد کے لئے ٹیسٹ نہیں کیا جاتا۔۔۔اگر آرکیٹیکٹس کو خیال نہیں آتا کہ وہ اس امر پر غور کریں کہ ان کے بنائے ہوئے ڈیزائن کیا لوگوں کو بیمار تو نہیں کر رہے کیونکہ وہ طبی تجربات سے گریز کرتے ہیں اور اس طرح کے تجربات کرنے کی تربیت بھی نہیں ہوتی۔

غیر صحت مندانہ ڈیزائن آپس میں ایک عنصر مشترک رکھتے ہیں : وہ یا تو کسی موجودہ خاکے یا مبہم خیال کہ عمارت کو کس طرح ہونا چاہیئے، کی طرح ہوتے ہیں۔ یہ بصری ماڈل اتنا مستند ہوتا ہے کہ ثبوت کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ اگر ثبوت منفی ہو تو بھی اصلی خاکے کی مذہبی جوش (religious zeal) سے پیروی کرتے ہیں اور شواہد کو رد کر دیتے ہیں ۔ آرکیٹکٹس اپنی ناکامی قبول نہیں کر سکتے کیونکہ وہ اپنی غلطی نہیں مانتے۔ ’’خود کے آئینے‘‘ کا ٹیسٹ اس بدقسمت عمل کو الٹ سکتا ہے۔ کوئی بھی اس ٹیسٹ کو استعمال کرنے کی تربیت حاصل کر سکتا ہے اور وہ ماحول میں شفایابی کے درجوں کی کمی یا بیشی شمار کر سکتا ہے۔

اس Prototype کو۔۔۔جو Nazis نے Rugen جرمنی کے جریدے پر بنایا ہے ۔۔۔سے لے کر Pruitt-Igoe ہاؤسنگ کمپلیکس جو St Louis میں ہے اور Corviale کمپلیکس Rome تک تمام ناکام ہیں۔

یکساں اقسام کی ایسی کئ مثالیں جو کم پیچیدہ ڈیزائن پر بنائی گئی ہیں انسانی استعمال اور احساسات سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ ان کے معمار انسانوں کے بارے میں یا تو بھول گئے یا اچھے خیال رکھتے ہوئے یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ ڈیزائن ایک خالص اعصابی تجربہ بن گیا اور بدقسمتی سے معماروں نے اس طریقے کی پیروی کی کیونکہ یہ سستا تھا۔ اور اس طرح کا کام پیسے کی بنا پر چلنے لگا۔

Informal Housing in Bogota Colombia ’’عام لوگ آرکیٹکٹس کے عقلی چکروں میں نہیں پڑ سکتے۔ اس کے برعکس ہم غیر رسمی بستیاں جو لوگوں نے خود بنائی ہیں، حیرت انگیز منظم پیچیدگی نظر آتی ہے۔ Image (c) Laura Amaya

سادہ اشکال شاید انسانوں کی انسانیت کو نظر انداز کریں لیکن آرکیٹکٹس کو اپنے جمالیاتی حسن کی بنا پر بہت پسند ہوتی ہیں۔

مسئلہ وہاں آتا ہے جب نقاد عمارتوں کی ظاہری شکل دیکھتے ہیں نہ کہ ان عمارات سے ذاتی تجربے کی بنیادپر۔نقاد اس امر کی پرواہ نہیں کرتے کہ چیزیں کام کرتی ہیں یا نہیں۔ نقاد مشہور آرکیٹکٹس اور بڑی انجینیئرنگ فرمز پر انحصار کرتے ہیں لہذا ان کے کام پر سوال نہیں اٹھاتے اور تنقید نہیں کرتے ۔ فن تعمیر کے فقدان کی وجہ آرکیٹکٹس کا صرف دوسرے آرکیٹکٹس کی تعریف کے لئے کام کرنا اور ناقدین کا اپنے فرض سے بئیمانی کرنا ہے۔ اور اس طرح فن تعمیر کا پیشہ خود پسندی کے ظالمانہ دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔

بیسویں صدی میں اور اب اکسیویں صدی میں بھی مشہور خاکوں کا نشہ تمام تحفظات کو منسوخ کر دیتا ہے۔ سخت Geometrical اشکال کا بنا سوچے سمجھے استعمال ہوتاہے۔ اس سے بھی بڑھ کر غلط طریقوں کا استعمال معمری جدت کے طور پر کیا جاتا ہے۔ ثابت شدہ ڈیزائن اور ’’خود کے آئینے‘‘ کا ٹیسٹ اس قسم کے غیر فعال عمل سے نجات دلا سکتا ہے۔