CHAPTER 6

UNIFIED ARCHITECTURAL THEORY

Bagsvaerd Church (Jorn Utzon) کو عموماََ ’’تنقیدی علاقائیت‘‘ کی مثال قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن Salingaros کے مطابق تنقیدی علاقائیت بھی فن تعمیر کو جدید اصولوں سے دور نہیں لے جا سکی۔ Image 169 Flickr User seier + seier - http://www.flickr.com/photos/seier

فرض کیجئے کہ ہم نے تمام طرز زبان جو مقامی روایات، پرانے زمانے اور جدید طریق سے لی گئی ہیں کامیابی سے جمع کر لی ہیں۔ اب سائنسی نقطہء نظر یہ کہتا ہے کہ تجزیے اور درجہ بندی کو استعمال میں لایا جائے۔ ایک فہرست معلومات کو ذخیرہ کرنے کا اچھا طریقہ ہے لیکن یہ منظم مطالعے کا صرف پہلا قدم ہے۔

طرز زبان کی آپس میں کیا قدریں مشترک ہیں اور کونسی خوبیاں مختلف ہیں۔۔۔ ایک طریقہ ان کی پیچیدگی کا درجہ جو طرز زبان کی وضاحتی طوالت سے عیاں ہوتا ہے اور دوسرا اس کا علاقائی موافقت ہے یعنی کہ طرز زبان کس حد تک اپنے آپ کو علاقائی منوا سکتا ہے۔ یہاں علاقائیت عالم گیریت کے متضاد ہے۔

لہذا طرز زبان کی علاقائی موافقت کی بنا پر درجہ بندی کرنی چاہےئے۔ اور اس طرح دیکھا جائے کہ یہ موافقت کتنی کامیاب ہے۔موافقت کی کامیابی کی مثال یہ ہو گی کہ ایک عمارت توانائی کے استعمال میں کتنی مؤثر ہے تا کہ عوام کی اکثریت اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ اس کے برعکس ہائی ٹیک توانائی کے نظام بہت مؤثر ہوتے ہیں لیکن ان میں بین الاقوامی درآمدی مواد اور ٹیکنالوجی استعمال ہو تی ہے جو علاقائیت کے نظریے کی نفی ہے۔

چلئے ایک نظریاتی نتیجہ اخذ کریں:۔ ’’کیا طرز زبان کی پیچیدگی اس کی علاقائیت کے درجے سے وابستہ ہے‘‘

علاقائیت اس امر کو ماپتی ہے کہ کس درجہ تک مواد استعمال ہوا ہے۔۔۔ عمارت کے خاکے اور بناوٹ میں مقامی ثقافت کا کتنا عمل دخل ہے اور کس حد تک آب و ہوا سے ارتقائی موافقت کا ڈیزائن میں عمل دخل ہے ۔ بحث برائے بحث ہم اسدرجہ بندی کو بھی شمار کرتے ہیں کہ کس حد تک یہ تمام عناصر ایک خوبصورت خیال کو بنانے میں رد کئے گئے ہیں۔

پرانے زمانے میں آمدورفت مشکل تھی لہذا لوگوں کو مقامی اشیاء استعمال کرنا پڑتی تھیں۔ یہ علاقائیت کا فلسفیانہ نظریہ ہے جو قدرتی آراضی کا احترام ہے۔ کیا درختوں، پہاڑوں اور جھیلوں کا احترام کیا جاتا ہے یا ان کا صفایا کرکے۔۔۔ اور یہ بھی کہ کیا کسی عمارت کو تعمیر کرنے میں پائیدار مقامی مواد استعمال کیا گیا ہے تاکہ مرمت اور دیکھ بھال سے لمبے عرصے تک پائیداری برقرار رکھی جا سکے۔ اور جو عمارات مقامی ماحول کے مطابق نہیں ہوتیں جلد خراب ہو جاتی ہیں اور اگر نہیں ہوتیں تو ناپسندیدہ مہمان بن جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ ایک وسیع موضوع پر مزید تحقیق کی جا سکتی ہے اوروہ یہ کہ انسان کسی عمارت سے کیا جذباتی رشتہ رکھتا ہے۔ اس کا زیادہ تعلق طرز زبان کے بیان سے ہے نہ کہ عمارت سے کسی تعلق کی بنا پر۔

جب ہم Christopher Alexander کے دعوے کہ ’’عمارتوں سے جذباتی لگاؤ مختلف ثقافتوں میں 90% مشترک قدریں رکھتا ہے۔۔۔ بھی اوپر دئے گئے سوال کا جواب ہے یہ نہیں ہے ۔۔۔کہ کیا کوئی چیز ہمیں پسند ہے کہ نہیں۔۔۔ بلکہ ایسا ہماری تعلیم و تربیت پر منحصر ہے۔ کسی بھی چیز کی ساخت کے خطوط کے آپس میں ربط جب اپنی قدروں کی انتہا کو حاصل کر لیتے ہیں تو ہمارے اندر ایک مثبت احساس پیدا کرتے ہیں۔ اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف اشیاء (Structures) کو دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ان کی تعمیری حیثیت بہت کم ہے یا اس کی جمالیاتی(Artistic) حیثیت نہیں ہے لیکن پھر بھی ہمیں اچھی لگتی ہیں ایسے حالات میں ہمارے احساسات اور ہمارے دماغ کی معقول دلیلیں آپس میں اختلاف پیدا کرتی ہیں اور ہم ادراکی ناموزونیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

کسی بھی شے یا ساخت سے ایک شدید ذاتی تعلق بنانے سے ہمیں ایک سکون بخش احساس ہوتا ہے اور خوشی ملتی ہے۔۔۔ جب تک کہ ہم ادراکی ناموزونیت (Congnitive Dissonance) کا شکار نہ ہوں۔ اس بحث کے اہم فلسفیانہ مضمرات ہیں۔ یہ ایک Post-Cartesian نظریہء کرہ ارض پیش کرتی ہے۔ یاد کیجئے کہ Descartes قدرتی اشیاء کو مشینوں کی مانند دیکھتا تھا جو ایک دوسرے سے بالکل الگ ہوں۔ اس کے برعکس ہم ایکانسان اور اس چیز کو جس کے ساتھ اس کا تعلق ہو ایک بڑے نظام کے دو عناصر کے طور پر دیکھتے ہیں۔ کسی عمارت یا چیز کو دیکھنے اور آزمانے سے دیکھنے والے اور دیکھی گئی چیز کے درمیان ایک تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔

جدید طبیعات (Physics) کی بنیاد اسی حقیقت یعنی دیکھنے والے اور دیکھی جانے والی چیز کے آپسی تعلق پر منحصر ہے۔ جو تجربات اس مظہر کو واضع کرتے ہیں وہ حقداری (Quantum) سطح پر کام کرتے ہیں۔یہاں پر ہم جس امر کی بات کر رہے ہیں وہ کلاں بینی (Macroscopic) سطح ہے تا ہم ہم حجم کے شمار کی بجائے احساسات پر انحصار کرتے ہیں۔

پھر بھی گزشتہ کئی دہائیوں میں فلسفیانہ Cartesianism کی فتح ہوئی اور یہ مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ کرہء ارض اور اس کے انتہائی پیچیدہ نظام کو سادہ مشینیں سمجھا جاتا تھا جو غلط ہے۔ ہمارے دنیا کو سمجھنے والے احساسات قابل تخفیف (Reductionist) ہو گئے ہیں جس میں ڈیزائن، فن تعمیر، سائنس کو رد کرنا، شامل ہیں۔ آجکل تعمیری بحث ناظر اور دیکھی چیز کے پیچیدہ تعلق کی نفی کرتی ہے۔

اس ارتقاء کی ابتداء کی کھوج ہم ایک پرانے سیاسی فلسفے تک پہنچتے ہیں ۔فلسفیوں کا ایک گروہ جو "Frankfurt School" کے نام سے مشہور تھا، نے سوسائٹی کے لئے انتہاء پسندانہ اصول تجویز کئے ۔ یہ Marxist تحریک کا حصہ تھا۔ ان کی تحریریں جو Critical Theory کے نام سے مشہور ہیں، انسانی فطرت کو نظر انداز کرتے ہوئے معصومیت سے ایک ایسے جدید انسان کا خاکہ پیش کرتی ہیں جو ان کی تجویز کردہ Utopian دنیا کو آباد کر سکے۔

Marxist نظریات کا بنیادی اصول یہ ہے کہ ماضی اور تمام روایات انسانی ارتقاء کے رستے میں حائل ہوتے ہیں اور ترقی حاصل کرنے کے لئے ماضی کو پہلے رد کرکے تباہ کرنا پڑتا ہے تا کہ یہ ہماری نئی تعمیر کردہ دنیا کو آلودہ نہ کر سکے۔اس سوچ کا ماحولیاتی ڈیزائن پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ فن تعمیر کے روائتی انداز سیاسی طور سے غلط قرار دئے جاتے ہیں۔

معماروں کا مسئلہ یہ ہے کہ تنقیدی نظریے Critical Theory کو فن تعمیر کے نظریے گردانتے ہیںCritical Theory کسی قسم کے نظریات نہیں ہیں بلکہ Marxist اور تکنیکی اصولوں (Technocratic) کے انقلاب کا نقشہ ہیں تا کہ روایات کو رد کرکے انسانوں کو ایک بڑی صنعتی مشین کی گراریاں(Cogs) سمجھا جا سکے۔

روائتی طرز زبان کی نفی ہوتی ہے اور ایک بین الاقوامی زبان کا اطلاق ہوتا ہے جو ٹیکنالوجی ، صنعت کاری اور اشتراکیت پر مبنی ہو۔ تنقیدی علاقائیت "Critical Regionalism" میں ڈیزائن کی مقامی آب و ہوا اور جگہ سے موافقت پیدا کی جاتی ہے اور حد درجہ مقامی مواد بھی استعمال ہوتا ہے۔ اور یہ بین الاقوامی جدت کے انداز کے خلاف ایک صحت مندانہ رد عمل ہے۔ بدقسمتی سے تنقید کا لفظ ایک تضاد پیدا کرتا ہے جبکہ یہ غیر علاقی غیر روائتی فلسفیانہ اور سیاسی تحریک ہے۔ عملاََ تنقیدی علاقائیت Modernism کی زبانوں کو جان بوجھ کر قائم رکھتی ہے۔

جبکہ ہمارا نظریہ یہ ہے کہ علاقائیت کا مقصد روائتی طرز زبان کی حفاظت اوردوبارہ استعمال ہو۔ اصل علاقائیت کو یکسانیت اور مطابقت کے حامل بین الاقوامی اثرات سے آزاد ہونا چاہیئے۔کیا طرز زبان کو فلسفے سے جوڑنا چاہیئے؟ میں مختلف مصنفین سے اختلاف کرتا ہوں اور اصرار کرتا ہوں کہ فلسفے کو فن تعمیرکے نظریات کا متبادل نہیں سمجھنا چاہیئے۔قطع نظر اس کے کہ طرز زبان کس طرح تشکیل پائی،فن تعمیر اور انسانی حیاتیات کے نظریاتی عناصر مفید عمارات کو تفصیلاََ بیان کرتے ہیں۔۔۔ استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ یہی فن تعمیر کے نظریے کا اصل حدث ہے۔ فلسفے یا سیاسی بحث کو طرز زبان سے جوڑنا اور نظریے کے طور پر لینا، نظریاتی احساس کو الجھانے کے مترادف ہے۔ بدقسمتی سے فن تعمیر کے نظریات پر لکھی گئی تمام کتابیں صرف تاریخی تفصیلات ہیں جنھیں ایک مخصوص طرز زبان کو ثابت کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے نہ کہ انسانی استعمال کو۔

مختلف ثقافتوں میں مشترک طرز زبان نے نشوونما پائی ہے جو مشترک مواد، آب وہوا اور جغرافیہ رکھتے ہیں۔ یہ متوازی مرکوز ارتقاء کی مثال ہے۔ ثقافتی اور جغرافیائی فرق کو برابر کرنے سے پائیدار ارتقاء اور توانائی کا مؤثر استعمال تباہ ہوجاتا ہے جو روائتی طرز زبان میں پنہاں ہے۔

قریبا ایک صدی سے ہم نے منصوبہ بندی پر منحصر نظریوں کو آزمایا ہے جو کہ اصل میں نظریہ (Theory) ہی نہیں۔ ایکمعمار (Architect) ایک عمارت اپنے تحت الشعور سے بناتا ہے اور ایک غیر واضح طرز زبان کا استعمال کرتا ہے اور بعد ازاں تفصیل پیدا کرتا ہے۔ یہ صرف مارکیٹنگ ہے۔تعمیری نقاد اس کو بنیاد بنا کر اسی وقتی تفصیل کی وضاحت کرتے ہوئے اس کو نظریے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور یہ عمل نہ ہی سائنسی ہے اور نہ اصل ڈیزائن کے عمل کی ایماندارانہ تفصیل ہے۔

کئی دفعہ ایک آرکیٹکٹ ایک ایسی شکل و صورت اور وضع کو ایجاد کرتا ہے جس کی کوئی عقلی بنیاد نہیں صرف ایک بصری الہام ہے کہ چند پسندیدہ تصورات کا اظہار کس طرح کرنا ہے ۔ اکثر ایک معمار شعوری اور لا شعوری طور پر تباہ کن اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔ اور یہ محرکات تیار منصوبے کو خلاف معمول Transgressive شکل دیتے ہیں۔

میں نہیں مانتا کہ دور حاضر کی عمارات کو بنانے کے بعد دئے گئے دلائل فن تعمیر کے طلباء کے لئے مفید نہیں ہیں۔ یہ صرف بنیادی مسئلہ ہے یعنی اصل نظریہ اور مارکیٹنگ کے فرق کو مذید الجھاتے ہیں۔